Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”ممی! میں آخری بار راحیل کے گھر جانا چاہتی ہوں “بالوں میں برش کرتی ہوئی صباحت نے اس کی طرف دیکھا ”پلیز ممی!لاسٹ ٹائم پھر کبھی میں آپ سے ایسا نہیں کہوں گی ۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں وہ زندہ ہے یا…“ صباحت نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے اٹھ کر ایک تھپڑ اس کے دائیں رخسار پر رسید کیا تھا۔ 
”کتنی سزا دو گی مجھے خود کو پیدا کرنے کی عائزہ “
”ممی! لاسٹ ٹائم “
”شٹ آپ عائزہ!جو کچھ تم نے کیا اور جو کچھ تم کرتی آئی ہو وہ میری برداشت سے کچھ زیادہ ہی ہوچکا ہے تمہیں ذرا کسی کا ڈروخوف نہیں ہے؟تمہیں معلوم ہے فیاض مجھ سے ایک ہفتے سے بات نہیں کر رہے ہیں صرف تمہاری وجہ سے اور اماں جان الگ میرے خلاف کوئی محاذ تیار کیے بیٹھی ہیں اور پھر بھابھی، بھائی اور خود فاخر نے بھی پلٹ کر تمہاری کوئی خبر نہیں لی ہے ۔


“وہ بھرے بادلوں کی طرح ایک دم ہی برسنا شروع ہوگئی تھیں۔ عائزہ کھڑی ہوئی آنسو بہارہی تھی کوئی اور وقت ہوتا توہ وہ ان کی پروا بالکل بھی نہیں کرتی اور کوئی نہ کوئی جھوٹ بول کر وہاں چلی جاتی پر اب وہ ٹوٹ گئی تھی ، بہت کمزور اور ڈرپوک ہوگئی تھی جس راحیل کی محبت نے اس کو نڈر و بہادر بنادیا تھا اسی راحیل کے اصل چہرے نے اس سے خود اعتمادی چھین لی تھی ۔
 
”جاؤ یہاں سے تماشا منت بنو، نہ مجھے تماشا بنانے کی کوشش کرو۔ ہونہہ! تم سے چھی تو وہ پری ہے جس کو نہ ماں کی محبت ملی اور نہ باپ کی شفقت پھر بھی وہ کس طرح زندگی گزار رہی ہے اس کا کردار اتنا مضبوط ہے کہ …بار ہا میرے الزامات لگانے پر بھی کسی نے یقین نہیں کیا “وہ جب بھی شدید غصے میں آتیں تو اس طرح سچ بولا کرتی تھیں۔ 
”آپ کے کیے کی سزا مجھے مل رہی ہے ممی!آپ نے کبھی پری کو اپنی بیٹی نہیں سمجھا، ہمیشہ اسے بدنام و رسوا کرنے کی کوشش کی “وہ روتے ہوئے ان کو وہ آئینہ دکھارہی تھی جس میں دیکھنے سے انہوں نے ہمیشہ اجتناب کیا تھا اور اب ان کی بیٹی ہی یہ کام کر رہی تھی ۔
 
”تم…تمہاری یہ جرات میرے سے اس طرح کا برتاؤ کرو، میں نے تمہارے لیے کیا کچھ نہیں کیا ؟تمہاری حرکتوں کو چھپاتی رہی، تمہارے رازوں پر پردہ ڈالتی رہی اور تم یہ صلہ دے رہی ہو ؟“صباحت تو مارے غصے کے آپے سے باہر ہوگئی تھیں۔ 
”تم پری کی طرفداری کر رہی ہو ؟ابھی جاکر بتاتی ہوں تمہارے سارے کرتوت فیاض اور اماں جان کو پھر مدد مانگنا اپنی اس چہیتی پری سے جس کی طرفداری میں ماں کو طعنے دے رہی ہو “
”سوری ممی! میرا یہ مقصد تو نہیں تھا “وہ ان سے لپٹ کر معذرتی لہجے میں کہنے لگی ۔
 
”آپ کو معلوم ہے نا ، میری ول پاور کس قدر کمزور ہوگی ہے اور مجھے خود اعتبار نہیں رہا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی ہے میں کیا بول دیتی ہوں “
”اٹس اوکے!اپنا خیال رکھو میری جان!آج تو یہ بے وقوفی کی باتیں تم نے کردی ہیں، یہ تو اچھا ہے گھر میں فیاض نہیں ہیں۔ اگر انہوں نے یہ سن لیا ہوتا تو قیامت آجانی تھی بس “انہوں نے اس کے بالوں کو بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔
 
”سو سویٹ مما! آپ کس قدر اچھی ہیں فوراً غصہ ختم کردیتی ہیں “
”اچھا اچھا اب زیادہ مجھے مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے یہ بتاؤ راحیل کے گھر کیوں جانا چاہتی تھی “وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ پر بیٹھتے ہوئے نرمی سے پوچھنے لگیں۔ 
”اللہ نے تمہاری عزت بچائی ہے اب پھر وہاں جانے کا مقصد کیا ہے تمہیں خواب میں بھی ایسی جگہ پر نہیں جانا چاہیے “جواباً وہ چپ رہی نظریں جھکائے بیٹھی رہی تھی ۔
 
”اتنا کچھ کرنے پر بھی تم راحیل کو دیکھنا چاہتی ہو بیٹا “ 
”جی…میں دیکھنا چاہتی ہوں اسے “
”عائزہ تم پاگل ہوگئی ہو کیا ؟“حیرت، دکھ و تاسف سے ان کی آواز کانپ رہی تھی ۔ 
”جی ممی! میں آخری بار دیکھنا چاہتی ہوں اسے …مردہ!“
###
”ارے بھئی بہت عجیب لڑکا ہے وہ شیری بھی اس دن آیا تو زبردستی کئی گلاب جامن مجھے اپنے ہاتھ سے کھلا کر گیا کہ وادی اس مٹھائی پر سب سے پہلے حق آپ کا ہی بنتا ہے آپ کے کہنے سے میں نے آفس جوائن کیا ہے “دادی آج کل شیری کے گن گانے میں مصروف رہتی تھی وہ بھی کسی مرید کی طرح ان کے دربار میں اکثر و بیشتر حاضری لگا رہتا تھا ۔
اس کے انداز میں سعادت مندی و فرماں برداری ہوتی تھی پھر پری کو بھی اس سے کوئی عناد نہ رہا تھا کیونکہ وہ کچھ دنوں سے عادلہ کے ساتھ تھا چند باتیں پری سے بھی کرلیتا تھا۔ 
”آج کہہ رہا تھا دادی جان! آپ کو ڈنر پر لے کر جاؤں گا“پری ان کے بالوں میں کنگھا کر رہی تھی اور وہ کہہ رہی تھیں۔ 
”پھر آپ کب جارہی ہیں ڈنر پر ؟“اس کے لہجے میں شوخی تھی ۔
 
”لو میں تو جیسے جانے کے لیے مچل رہی ہوں نا “
”کوئی اتنے پیار سے کہے تو چلے جانا چاہیے دادی جان “ 
”تم مجھ سے مذاق مت کرو پری، وہ سب کو لے جانے کی کہہ رہا تھا مگر میں نے منع کردیا ، گھر میں جو صورت حال ہے وہ اس سے کہاں واقف ہوسکتا ہے۔ عائزہ تو ٹھیک ہوگئی ہے لیکن فیاض کا مزاج ابھی بھی خراب ہے نامعلوم کیا دل میں ٹھان کر بیٹھا ہے ۔
”پاپا کو اتنا غصہ آئے گا یہ مجھے اندازہ ہی نہ تھا دادی جان ! کبھی میری ممی کے سامنے بھی پاپا کو ایسا غصہ آیا ہے “وہ دھیمے لہجے میں بولی ۔ 
”نہیں! تمہاری ماں فیاض کے تمام عادت و مزاج سے واقف تھی، اچھی لڑکی تھی وہ سلجھی ہوئی ، پڑھی لکھی، ادب و آداب والی، صباحت تمہاری ماں کی الٹ ہے ۔ بالکل مختلف مزاج و عادت اس کی ہے ۔ “
”یہ آپ کہہ رہی ہیں دادی!“مسرت و انبساط سے وہ اچھل پڑی تھی آپ میری مما کی تعریف کر رہی ہیں دادی جان!”ہاں وقت گزارنے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے اپنی عقل مندی یا پھر حماقت کا، سچ بات تو یہ ہے میں عامرہ اورآصف کے بہکاوے میں آکر اپنے بچے کا گھر تباہ کر بیٹھی تھی “
”عامرہ اور آصفہ پھوپھو نے ایسا کیوں کیا؟“
”انہیں خوف تھا ان کا بھائی امیر کبیر بیوی کے ساتھ الگ نہ ہوجائے ، ان کو بھول کر اپنی دنیا علیحدہ نہ بسالے پھر ان دنوں صباحت نے کچھ ایسی تابعداری و ملنساری میں ہم کوجکڑا ہوا تھا کہ اس کے سوا ہم کو کچھ نظر نہ آتا تھا۔
ہر دوسرے دن ہماری دعوتیں ہوتی تھیں، ناجانے کون سے پینترے بدلے تھے صباحت نے، اس کو اس گھر میں میری بہو بن کر آنے کی چاہ تھی اور تقدیو کو بھی یہی منظور تھا وہ چلی گئی اور یہ آگئی۔ سمجھو پریشانیوں کے در کھل گئے “ انہوں نے نم ہونے والی آنکھوں کو دوپٹے سے رگڑا۔ دبیز اداسی وہاں پھیل گئی۔ 
”یہ ایسا دکھ ہے جو قبر تک میرے ساتھ آئے گا، جب عورت ساس بن جائے تو اس کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھے عموماً ہمارے معاشرے میں یہی ہوتا ہے۔
بیٹیاں ماں کے کان بھابھی کے خلاف بھرتی ہیں اور نتیجتاً گھروں میں سکون، پیار و محبت و رخصت ہوجاتا ہے پھر رات دن کی چخ چخ سے گھر ٹوٹتے ہیں اگر نہ ٹوٹیں تو ان میں دراڑیں ضرور پڑ جاتی ہیں۔ “اس کے چہرے پر بڑی پیار بھری سکون آمیز مسکراہٹ پھیل گئی تھی ۔ 
دادی کے وہائٹ ریشم جیسے بالوں کو وہ آرام سے بل دے رہی تھی ، آج اس کی ممی کی فتح کا دن تھا، آخر کار حق کی فتح ہوئی تھی ، دادی نے اس کی ممی کے خلوص و اچھائی کا اعتراف کرلیا تھا وگرنہ وہ ہمیشہ ان کے ذکر پر چپ رہتی تھی۔
زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اس کے لبوں پر در آئی تھی ۔ 
”طغرل میں مستقل مزاجی نہ جانے کب آئے گی ؟فون کرتا ہے تو دن میں بار بار فون کرلیتا ہے یا کئی کئی دنوں تک ایک بار بھی فون نہیں کرتا وہ لڑکا “ان کو یکلخت طغرل کی یاد ستاے لگی۔ 
”آپ کو معلوم ہے جب میں نانو کے ہاں تھی جب فون پر مجھے ڈانٹ رہے تھے کہ میں آپ کو چھو ڑکر وہاں کیوں گئی ہوں اور اب خود کا پتا نہیں ہے جو دادی کو ایک کال بھی نہیں کی جارہی ہے ۔
“اس نے فوراً شکایت لگائی تھی ۔ 
”بہت محبت کرتا ہے وہ مجھ سے وہاں جاکر بھی وہ میرا خیال رکھتا ہے شیری آتا ہے تو میں اس کو اپنا طغرل ہی سمجھنے لگتی ہوں “
”طغرل بھائی واپس نہیں آئے تو آپ کو اتنا دکھ نہیں ہوگا کہ شیری کسی حد تک ان کی کمی پوری کرنے لگے ہیں “
”پگلی! بچوں جیسی باتیں کرنے لگی ہو، طغرل کی جگہ کوئی بھی نہیں لے سکتا، وہ میرے دل کا ٹکڑا ہے میری روح کا حصہ ہے “
”تب بھی وہ آپ کی طرف سے غافل ہیں ایک کال بھی نہیں کر رہے “وہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے منہ بناکر گویا ہوئی ۔
 
”تم بلاوجہ مجھ کو اس سے بدظن کرنے کی سعی نہ کرو تو بہتر ہے ۔ میں جانتی ہوں میرا بچہ کسی ضروری کام میں پھنسا ہوا ہے، تم دیکھنا آج کل میں فون آنے ہی والا ہے اس کا “دادی نے بھی مسکراتے ہوئے اسے چڑایا تھا۔ 
”ارے اب تو تمہارا کمرا خالی ہے وہاں سویا کرو، کیوں میرے پاس گھسی رہتی ہو، اپنے کمرے میں جاؤ“ انہوں نے چونک کر اس سے کہا ۔
 
”کیا پتا کب آپ کے لاڈلے صاحب آجائیں اور مجھے پھر سے کمرا بدرہونے کا آرڈر مل جائے، ایسی بے عزتی سے بہتر ہے میں یہیں آپ کے پاس سووؤں تو اچھا ہے ۔ “آج اس کو ایسی خوشی ملی تھی کہ وہ مسکرائے جارہی تھی ۔ 
”طغرل ابھی نہیں آئے گا، اس کی فیکٹری تیار نہیں ہوئی ہے ، کچھ کام باقی ہے اور کوٹھی بھی تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔ کوٹھی اور فیکٹری تیار ہونے کے بعد وہ سب آئیں گے پاکستان رہنے۔
تاؤ اور تائی کے ساتھ بھائی اور بھابھی بھی آجائیں گے “
”فراز کا تو یہی ارادہ ہے اگر بہو بیٹے رہنے کے لیے نہیں آئیں گے تو یہاں ہم سے ملنے کے لیے آئیں گے نا“ انہوں نے اطمینان سے جواب دیا وہ بھی اپنے کمرے کو یاد کر رہی تھی ۔ دادی کی اجازت پر وہ اپنے کمرے کی طرف جارہی تھی معاً لان کی طرف جاتی سیڑھیوں پر بیٹھی عادلہ کی ہنسی کے جلترنگ اس کی سماعتوں سے ٹکرائے تھے، وہ بے اختیار اس کی طرف بڑھ گئی ۔
 
”کیا ہوا ؟تم کیوں آئی ہو ادھر “وہ موبائل کان سے ہٹا کر اس سے تند لہجے میں بولی ۔ 
”کس سے باتیں کر رہی ہو اس ٹائم؟“وہ اعتماد سے بولی۔ 
”شیری سے باتیں کر رہی ہوں میں اس ٹائم “وہ اس کے چہرے کو گھورتے ہوئے معنی خیز لہجے میں بولی۔ 
”پاپا ابھی گھر نہیں آئے ہیں ان کے آنے سے پہلے یہاں سے اٹھ جاؤ ، “وہ کہہ کر چلی گئی عادلہ فیاض کے نام پر پریشان ہوگئی تھی ۔
 
”اوہ انوسنٹ گرل!اپنی سسٹر کے ڈرانے سے ڈر گئی ہوتم پلیز کچھ دیر اور باتیں کرتے ہیں “دوسری طرف سے شیری نے پری کی باتیں سن کر عادلہ سے کہا جو اسے کل کال کرنے کا کہہ رہی تھی ۔ 
”میں پری سے ڈرنے والی نہیں ہوں ، وہ دراصل ان دنوں پاپا بے حد ڈسٹرب ہیں ان کو بات بے بات غصہ آرہا ہے “وہ پری کے کمرے میں چلی آئی تھی جو بیڈ شیٹ چینج کر رہی تھی۔
 
”اوہ…بالآخر بدھو لوٹ کر گھر کو واپس آگئے ہیں “وہ دیلیز پر کھڑ ہوکر طنزیہ مسکراہٹ سے بولی۔ 
”طغرل کے واپس آنے کا ارادہ نہیں ہے ؟کیا اس نے وہاں کوئی نیلی آنکھوں والی میم پسندکرلی ہے جو تم اس روم میں آگئی ہو “
”مجھ سے فضول سوالات کرنے کی ضرورت نہیں ہے تم کو جو پوچھنا ہے دادی سے پوچھو، پری نے مصروف انداز میں کہا۔
”ارے مجھے تو کچھ جلنے کی بو آرہی ہے اوہ یہ یقینا تمہارا دل ہوگا جو شیری کو میرا ہوتا دیکھ کرجل کر کباب ہورہا ہے “
”تمہیں ایسی خوش فہمیاں کیوں رہتی ہیں عادلہ! مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم شیری کی ہوتی ہو یا شیری تمہارا، “وہ بھی اس کے انداز میں دوبدوبولی۔ 
”میں سب جانتی ہوں تمہیں جتنی تم زمین کے اوپر ہو اتنی ہی زمین کے نیچے ہو لیکن یاد رکھنا غلطی سے بھی میرے اور شیری کی راہ میں آنے کی کوشش کی تو تمہیں پوری زمین میں دفن کردوں گی ، بہت مشکل سے پایا ہے میں نے شیری کو “وہ سخت لہجے میں کہتی ہوئی چلی گئی ۔
 
پری نے دروازہ لاکڈ کیا اور نائٹ بلب آن کرکے بیڈ پرلیٹ گئی، چھ سات ماہ کے طویل عرصے میں وہ اپنے کمرے میں موجود تھی ، مالکانہ حقوق کے ساتھ کمرا ملنے کی ساری خوشی عادلہ کی کڑوی باتوں نے خراب کردی تھی ۔ لیکن ان باتوں کا یہ فائدہ ہوا کہ وہ جلدی سوگئی تھی ۔ فجر کی نماز کے بعد وہ کمرے سے نکل کر نیچے لان میں آگئی تھی ، سورج ابھی نکلا نہیں تھا سرمئی اندھیرا ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا ۔
جاتی سردیوں، آتی گرمیوں کی خنک صبح تھی گھاس کچھ نم تھی ، وہ سلیپرز اتار کر گھاس پر چلنے لگی ۔ 
ٹھنڈی گھاس اور خوشگوار ہوا کے سبک جھونکے اس کو کسی اور ہی دنیا کی سیرا کرنے لگے وہ مسرور سی ٹہلتے ٹہلتے مڑی اور ٹھٹک کر رک گئی۔ سامنے دیکھتے ہوئے وہ ساکت ہوگئی تھی ۔ 
”آداب عرض! “و ہ مسکراتا ہوا اس کے قریب چلا آیا تھا۔ 
”طغرل…بھائی…آپ…کب…آئے؟“حیرت و بے یقینی کے باعث اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی ۔ 
”ایک گھنٹہ قبل “وہ دلچسپی سے اس کے چہرے کے نقوش سے ابھرتی حیرت کو دیکھتا ہوا گویا ہوا تھا ۔ 
”آپ نے آنے کی اطلاع کیوں نہیں دی ؟“
”پھر میں تمہارا یہ حیرت آمیز استقبال کس طرح دیکھ سکتا تھا ؟“

   1
0 Comments